بہت بے درد ہوں نا میں؟ 3غزلیں

بہت بے درد ہوں نا میں؟

ستاتا ہوں بہت تُم کو
رُلاتا ہوں بہت تُم کو
کہ تُم کو چھوڑ کر تنہا
خزاں لمحوں کی بانہوں میں
بہت ہی دُور سوچوں سے
یہاں پردیس آیا ہوں
مگر میں سوچتا ہوں کہ
سبھی ساون، سبھی بھادوں
کٹے جو میرے بن جاناں
وہ سب کیسے لوٹاؤں گا
کہ میں اس ہجر کی قیمت
بھلا کیسے چُکاؤں گا
کہوں گا کیا، کروں گا کیا؟
مجھے اتنا پتا دے دو؟
چلو ایسا کرو جاناں
مجھے کوئی سزا دے دو
کہ جب سونے کو من چاہے
اور ان آنکھوں کو مُوندوں میں
میری پلکوں کی گھونگٹ اُڑ کر
تُم رُوبرو آنا
میری آنکھوں میں بس جانا
ذرا بھی دُور اپنی یاد سے ہونے نہیں دینا
مجھے سونے نہیں دینا
..............................................................................................

اک مسافت پاؤں شل کرتی ہوئی سی خواب میں
اک سفر گہرا مسلسل زردی مہتاب میں
تیز ہے بوئے شگوفہ ہائے مرگِ ناگہاں
گھر گئی خاک زمیں جیسے حصارِ آب میں
حاصل جہد مسلسل، مستقبل آزردگی
کام کرتا ہوں ہوا میں جستجو نایاب میں
تنگ کرتی ہے مکان میں خواہشِ سیر بسیط
ہے اثر دائم فلک کا صحن کی محراب میں
اے منیر اب اس قدر خاموشیاں، یہ کیا ہوا

یہ صفت آئی کہاں سے پارہ سیماب میں
.........................................................................................


ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے
آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے
ڈالا ہے بیخودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے
کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کا سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے
یکساں ہے حُسن و عشق کی سرمستیوں کا رنگ
اُن کی خبر نہیں ہے نہ اپنی خبر مجھے
میں دُور ہوں تو روحِ سخن مجھ سے کس لیے
تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتا نظر مجھے
دل لے کے میرا دیتے ہو داغِؔ جگر مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے
گوگل پلس پر شئیر کریں

مصنف Muhammad Asfand Yar

    گوگل پلس سے تبصرہ کریں
    فیس بک سے تبصرہ کریں

0 comments:

Post a Comment